Jump to navigation Jump to search
دوسری زبان: لباس کوردی سورانی 94 ملین پاکستان مـیں (1999).[2]
-
ہند ایرانی
- ہند۔آریـائی
- مرکزی ہند-آریـائی
- مغربی ہندی
- کھڑی بولی[3]
- اردو-ہندی[3]
- اردو
- اردو-ہندی[3]
- کھڑی بولی[3]
- مغربی ہندی
- مرکزی ہند-آریـائی
- ہند۔آریـائی
- فارسی-عربی رسم الخط (اردو حروف تہجی)
- بھارتی اردو بریل (بھارتی)
- پاکستانی اردو بریل
- رومن اردو
- Indian Signing System (ISS)[4]
- Signed Urdu[5]
- پاکستان
- بھارت؛ ریـاستیں اور متحدہ عملداری:
- بہار
- دہلی (قومـی دارالحکومت علاقہ)
- جموں و کشمـیر
- اتر پردیش
- جھارکھنڈ
- مغربی بنگال (علاقے جہاں اردو بولنے والے دس فیصد سے زیـادہ ہیں)
- تلنگانہ
- ادارہ فروغ قومـی زبان
- قومـی کونسل برائے فروغ اردو زبان[6]
بشمول 58 تنوع: 59-AAF-qaa to 59-AAF-qil)
اُردُو (یـا جدید معیـاری اردو) ہندوستانی زبان کی معیـاری قسم ہے۔ یہ پاکستان کی قومـی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھے ریـاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ بھارتی آئین کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت زبانوں مـیں شامل کیـا جاچکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت مـیں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان مـیں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ [حوالہ درکار] بعض ذخیرہ الفاظ کے علاوہ یہ زبان معیـاری ہندی سے قابل فہم ہے جو اس خطے کی ہندوؤں سے منسوب ہے۔ [حوالہ درکار] زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور مـیں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمـیر مـیں اسے سنہ 1846ء اور پنجاب مـیں سنہ 1849ء مـیں بطور دفتری زبان نافذ کیـا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیـائی اور امریکی علاقوں مـیں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیـادی طور پر جنوبی ایشیـاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد وشمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمـین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی اس لحاظ سے یہ دنیـا کی نویں بڑی زبان ہے۔
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیـا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی مـیں بُنیـادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط مـیں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط مـیں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیـادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیـات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیـاری صورتیں گردانتے ہیں۔ تاہم، دیگر ماہرین اِن دونوں کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیـاد پر الگ الگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیـا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔
اردو زبان باوجود دنیـا کی نئی زبانوں مـیں سے ہونے اپنے پاس معیـاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیـائی زبانوں مـیں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
تاریخ
اردو ہندی زبان کی طرح ہندوستانی زبان کی ایک قسم ہے۔ یہ شوراسنی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریـائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیـاد سمجھی جاتی ہے، ان مـیں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرہویں صدی) کے درمـیان وجود مـیں آئی۔
اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یـا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا۔ ترک زبان سے اردو مـیں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ ٍعرب ،ترک الفاظ اردو مـیں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں جیسے ة کو اکثر اوقات ه مـیں بدل دیـا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یـا (ت) مـیں بدل دیـا جاتا ہے۔
عربی کا اس خطے مـیں عمل دخل اس وقت شروع ہوا جب پہلے ہزار سال کے آخری دور مـیں عربوں نے برصغیر کے کچھ علاقوں مـیں بطور فاتح قدم جمایـا۔ جبکہ کچھ صدیوں بعد وسطی ایشیـا کے افغان ترک فارسی متکلم باشاہوں نے فارسی زبان کو اس خطے مـیں متعارف کرایـا، ان بادشاہوں مـیں سلطان محمود غزنوی قابل ذکر ہیں۔ دلی کی ترک افغان سلطنت نے سب سے پہلے فارسی کو شمالی ہندوستان کی دفتری زبان قرار دیـا پھر ان کی پیروی کرتے ہوئے مغلوں نے بھی اسے سولہویں سے اٹھارویں صدی تک اسی حالت مـیں برقرار رکھا، یوں صدیوں تک فارسی زبان نے جنوبی ایشیـا مـیں اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھے۔ اس طرح اس نے ہندوستانی کی ترقی مـیں اہم کردار ادا کیـا۔
اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیـا جاتا ہے اور اسی حوالے سے کئی نظریـات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ممتاز محقق حافظ محمود شیرانی کے نزدیک یہ زبان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان کے ادوار مـیں پنجاب مـیں پیدا ہوئی جب فارسی بولنے والے سپاہی پنجاب مـیں بس گئے نیز ان کے نزدیک یہ فارسی متکلمـین دو سو سال تک دہلی فتح کرنے سے قبل وہاں آباد رہے، یوں پنجابی اور فارسی زبانوں کے اختلاط نے اردو کو جنم دیـا پھر ایک آدھ صدی بعد جب اس نئی زبان کا آدھا گندھا خمـیر دہلی پہنچا تب وہاں اس نے مکمل زبان کی صورت اختیـار کی اس حوالے سے انھوں نے پنجابی اور اردو زبان مـیں کئی مماثلتیں بھی پیش کی ہیں۔ (سندھ جسے مسلمانوں نے اس سے بھی قبل فتح کیـا کے متعلق ان کا خیـال ہے کہ وہاں مسلمانوں نے مقامـی زبان نہیں اپنائی)۔ شیرانی کے اسی نظریہ کو "پنجاب مـیں اردو" نامـی مقالے مـیں لکھا گیـا جس نے اردو زبان دانوں مـیں کافی شہرت پائی اور اسی کو دیکھ کر بہت سے محققین نے مسلمانوں کی آمد سے اردو کے آغاز کو جوڑنا شروع کیـا اس طرح "دکن مـیں اردو"، "گجرات مـیں اردو"، "سندھ مـیں اردو"، "بنگال مـیں اردو "حتیٰ کہ "بلوچستان مـیں اردو" کے بھی نظریـات سامنے آئے۔ (حقیقتاً شیرانی سے قبل بھی بعض محققین جیسے سنیت کمار چترجی، محی الدین قادری زور اردو پنجابی تعلق کے بارے مـیں ایسے خیـالات رکھتے تھے البتہ اسے ثابت کرنے مـیں وہ دوسروں سے بازی لے گئے) حافظ شیرانی کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں مـیں مسعود حسین خان اور سبزواری جیسے محققین شامل ہیں جنہوں نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کیـا۔ ایک نظریہ یہ بھی مشہور ہے کہ اردو مغل بادشاہ اکبر کے لشکر مـیں وجود آئی لیکن بہت سے ماہرین لسانیـات اس کی نفی کرتے ہیں۔
برطانوی راج مـیں فارسی کی بجائے ہندوستانی کو فارسی رسم الخط مـیں لکھا جاتا تھا اور ہندو مسلم دونوں اس پر عمل کرتے تھے۔ لفظ اردو کو شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیـا۔ تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پر ہندی ہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے جیسے ہندوی ،ریختہ یـا دہلوی۔ اردو اسی طرح علاقائی زبان بنی رہی پھر 1837ء مـیں فارسی کی بجائے اسے انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ دیـا گیـا۔ اردو زبان کو برطانوی دور مـیں انگریزوں نے ترقی دی تاکہ فارسی کی اہمـیت کو ختم کیـا جا سکے۔ اس وجہ سے شمال مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں مـیں تحریک اٹھی کہ بجائے فارسی رسم الخط کہ اس زبان کو مقامـی دیوناگری رسم الخط مـیں لکھا جانا چاہیے۔ نتیجتاً ہندوستانی کی نئی قسم ہندی کی ایجاد ہوئی اور اس نے 1881ء مـیں بہار مـیں نافذ ہندوستانی کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس مسئلہ نے فرقہ وارانہ بنیـادوں پر ہندوستانی کو دو زبانوں اردو (برائے مسلم) اور ہندی (برائے ہندو) مـیں تقسیم کر دیـا۔ اور اسی فرق نے بعد مـیں ہندوستان کو دو حصوں بھارت اور پاکستان مـیں تقسیم کرنے مـیں اہم کردار ادا کیـا (اگرچہ تقسیم سے پہلے اور بعد مـیں بھی بہت سے ہندو شعرا و مصنفین اردو سے سے جڑے رہے جن مـیں معروف پریم چند ،گلزار، گوپی چند نارنگ ،آزاد اوروغیرہ ہیں)
اردو اور ہندی زبان کو "پاک" کرنے کی مہم اب بھی جاری ہے اور اس طرح اردو مـیں سنسکرت کی بجائے فارسی عربی الفاظ زیـادہ داخل کیے جاتے ہیں جبکہ ہندی مـیں سنسکرت کے الفاظ کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس طریقے نے تعلیمـی اور ادبی ذخیرہ الفاظ کو بہت متاثر کیـا ہے اس کے باجود دونوں قوموں مـیں اب بھی سنسکرت اور فارسی کی جڑیں باقی ہیں۔ انگریزی نے ان دونوں زبانوں پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
بولنے والے اور جُغرافیـائی پھیلاؤ
- بحرین (اقلیتی)
- بنگلادیش (اہم اقلیتی زبان)
- فجی (ہندستانی، انگریزی اور فجی کے ساتھ شریک سرکاری زبان)
- بھارت (21 دیگر زبانوں کے ساتھ شریک سرکاری زبان)
- نیپال (اقلیتی زبان)
- موریشس (اقلیتی زبان)
- سلطنت عمان (اقلیتی زبان)
- پاکستان (انگریزی کے ساتھ شریک سرکاری زبان)
- قطر (اقلیتی زبان)
- سعودی عرب (اقلیتی زبان)
- جنوبی افریقا (اقلیتی زبان)
- متحدہ عرب امارات (اقلیتی زبان)
- مملکت متحدہ (اقلیتی زبان)
- ریـاستہائے متحدہ (اقلیتی زبان)
معیـاری اُردو (کھڑی بولی) کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے۔ ایس۔ آئی۔ ایل نژادیہ کے 1999ء کی شماریـات کے مطابق اُردو اور ہندی دُنیـا مـیں پانچویں سب سے زیـادہ بولی جانی والی زبان ہے۔ لینگویج ٹوڈے مـیں جارج ویبر کے مقالے : 'دُنیـا کی دس بڑی زبانیں ' مـیں چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد اُردو اور ہندی دُنیـا مـیں سب سے زیـادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اِسے دُنیـا کی کل آبادی کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں۔
اُردو کی ہندی کے ساتھ یکسانی کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے کو عموماً سمجھ سکتے ہیں۔ درحقیقت، ماہرینِ لسانیـات اِن دونوں زبانوں کو ایک ہی زبان کے حصّے سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ معاشی و سیـاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لوگ جو اپنے آپ کو اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں وہ ہندی کو اپنی مادری زبان تسلیم نہیں کرتے اور اِسی طرح اِس کے برعکس۔
پاکستان مـیں اردو
اُردو کو پاکستان کے تمام صوبوں مـیں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مدرسوں مـیں اعلٰی ثانوی جماعتوں تک لازمـی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کردیے ہیں جن کی زبان پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمـیری، براہوی، چترالی وغیرہ مـیں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ اُردو پاکستان کی مُشترکہ زبان ہے اور یہ علاقائی زبانوں سے کئی الفاظ ضم کر رہی ہے۔ اُردو کا یہ لہجہ اب پاکستانی اُردو کہلاتی ہے۔ یہ اَمر زبان کے بارے مـیں رائے تبدیل کر رہی ہے جیسے اُردو بولنے والا وہ ہے جو اُردو بولتا ہے گو کہ اُس کی مادری زبان کوئی اَور زبان ہی کیوں نہ ہو۔ علاقائی زبانیں بھی اُردو کے الفاظ سے اثر پا رہی ہیں۔ پاکستان مـیں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان کوئی اَور ہے لیکن وہ اُردو کو بولتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ پانچ ملین افغان مہاجرین، جنھوں نے پاکستان مـیں پچیس برس گزارے، مـیں سے زیـادہ تر اُردو روانی سے بول سکتے ہیں۔ وہ تمام اُردو بولنے والے کہلائیں گے۔ پاکستان مـیں اُردو اخباروں کی ایک بڑی تعداد چھپتی ہے جن مـیں روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت اور ملّت شامل ہیں۔
8 ستمبر 2015ء بروز منگل کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوری طور پر سرکاری دفاتر مـیں اردو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کے لیے متعلقہ حکام کو حکم دیـا۔ [8]
بھارت مـیں اردو
بھارت مـیں، اُردو اُن جگہوں مـیں بولی اور استعمال کی جاتی ہے جہاں مسلمان اقلیتی آباد ہیں یـا وہ شہر جو ماضی مـیں مسلمان حاکمـین کے مرکز رہے ہیں۔ اِن مـیں اُتر پردیش کے حصے (خصوصاً لکھنؤ)، دہلی، بھوپال، حیدرآباد، بنگلور، کولکتہ، مـیسور، پٹنہ، اجمـیر اور احمد آباد بھٹکل شامل ہیں۔ کچھ بھارتی مدرسے اُردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں، اُن کا اپنا خاکۂ نصاب اور طریقۂ امتحانات ہیں۔ بھارتی دینی مدرسے عربی اور اُردو مـیں تعلیم دیتے ہیں۔ بھارت مـیں اُردو اخباروں کی تعداد 35 سے زیـادہ ہے۔
جنوبی ایشیـاء سے باہر اُردو زبان خلیجِ فارس اور سعودی عرب مـیں جنوبی ایشیـائی مزدور مہاجر بولتے ہیں۔ یہ زبان برطانیہ، امریکا، کینیڈا، جرمنی، ناروے اور آسٹریلیـا مـیں مقیم جنوبی ایشیـائی مہاجرین بولتے ہیں۔
ممالک جہاں اُردو اصل بولنے والے بڑی تعداد مـیں آباد ہیں
درج بالا فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ اصل اُردو بولنے والوں کی زیـادہ تعداد جنوبی ایشاء کی بجائے چھوٹے عرب ریـاستوں (متحدہ عرب امارات، بحرین) مـیں ہے، جہاں اُن کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا 10 فیصد سے زیـادہ ہے۔ اِس کی وجہ وہاں پر پاکستان اور بھارتی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ہے۔
سرکاری حیثیت
پاکستان مـیں
اُردو پاکستان کی قومـی زبان ہے اور یہ پورے ملک مـیں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں مـیں مستعمل ہے۔ یہ ملک کی سماجی و ثقافتی مـیراث کا خزانہ ہے۔
بھارت مـیں
اُردو بھارت کی سرکاری زبانوں مـیں سے ایک ہے۔ یہ بھارتی ریـاستیں آندھرا پردیش، بہار، جموں و کشمـیر، اُتر پردیش، جھارکھنڈ، دار الخلافہ دہلی کی سرکاری زبان ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر، کرناٹک، پنجاب اور راجستھان وغیرہ ریـاستوں مـیں بڑی تعداد مـیں بولی جاتی ہے۔ بھارتی ریـاست مغربی بنگال نے بھی اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے رکھا ہے۔
فقرہ کی ساخت
لاطینی جیسی قدیم زبانوں کی طرح اردو صرف و نحو مـیں فقرے کی ساخت فاعل-مفعول-فعل انداز مـیں ہوتی ہے۔ مثلاً فقرہ "ہم نے شیر دیکھا" مـیں "ہم"=فاعل، "شیر"=مفعول اور "دیکھا"=فعل ہے۔ کئی دوسری زبانوں مـیں فقرے کی ساخت فاعل-فعل-مفعول انداز مـیں ہوتی ہے۔ مثلاً انگریزی مـیں کہیں گے "وی سا آ لائن"۔
بولیـاں
اردو کی بولیـاں جن کو شناخت کیـا گیـا ہے وہ یہ ہیں ؛
- دکنی - اس کو دکھنی، دیسیـا، مرگان نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ زبان دکن بھارت مـیں بولی جاتی ہے۔ مہاراشٹر مـیں جائیں تو مراٹھی اور کونکنی زبانوں کا اثر ملے گا، آندھرا پردیش جائیں تو تیلگو کا اثر ملے گا۔
- ریختہ
- کھری بولی :(کھڑی بولی)
پاکستان مـیں اردو پر پشتو، پنجابی،سرائیکی، بلوچی، سندھی زبانوں کا اثر پایـا جاتا ہے , مقامـی زبانوں کے اثر کی وجہ سے اردو کے حروف تہیجی عربی اور فارسی سے زیـادہ ہیں بنیـادی طور پر پاکستان کی اردو پر فارسی اور عربی کا زیـادہ اثر پایـا جاتا ہے۔
ادب
اردو ادب حال ہی کی صدیوں مـیں مقام پایـا، اس سے کئی صدیوں تک سلاطین دہلی پر فارسی کا غلبہ تھا۔ فارسی کی جگہ اردو نے بڑی آسانی سے پالی اور یہاں تک کہ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ فارسی کبھی سرکاری زبان تھی بھی کہ نہیں۔ اس کی وجہ اردو کے مصنفین اور فنکار ہیں۔
نثری ادب
اردو زبان مـیں اسلامـی ادب اور شریعت کی کئی تصانیف ہیں۔ اس مـیں تفسیر القران، قرآنی تراجم، احادیث، فقہ، تاریخ اسلام، روحانیت اور صوفی طریقہ کے بے شمار کتب دستیـاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو مـیں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامـی ادبی کتب کا خزینہ اردو مـیں دستیـاب ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پنڈت روپ چندجوشی نے 18وں صدی مـیں ایک کتاب لکھی جس کا نام لال کتاب ہے۔ اس کا موضوع فالنامہ ہے۔ یہ کتاب برھمنوں کے اُن خاندانوں مـیں جہاں اردو عام زبان تھی، کافی مشہور کتاب مانی گئی۔
ادبیغیر مذہبی ادب کو پھر سے دو اشکال مـیں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فکشن ہے تو دوسرا غیر فکشن۔
- فکشن اصناف : افسانہ نگاری کافی مشہور صنف تسلیم کی گئی۔ افسانہ لکھنے والے کو افسانہ نگار کہتے ہیں۔ ان افسانہ نگاروں مـیں مشہور پریم چند، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، غلام عباس، بلونت سنگھ، ممتاز مفتی، خواجہ احمد عباس، انتظار حسین اور احمد ندیم قاسمـی شہرت یـافتہ ہیں۔
- اردو ناول بھی کافی مشہور صنف ہے۔ اردو کے مشہور ناولوں مـیں اُمراؤ جان ادا، آگ کا دریـا، بستی، اداس نسلیں، خدا کی بستی، آخر شب کے ہمسفر، راکھ، بہاؤ، شامِ اودھ، کئی چاند تھے سرِ آسماں، جانگلوس، گریز، آنگن، علی پور کا ایلی، ضدی، ٹیڑھی لکیر، خس و خاشاک زمانے اور اے غزال شب شہرت رکھتے ہیں۔
- سفر نامہ :
- مضمون :
- سرگذشت :
- انشائیہ :
- مراسلہ :
- خود نوشت :
دیگر اصناف ہیں۔
نظم
ادب کا دوسرا قسم نظم ہے۔ نظم کے معنی موتی پرونا ہے۔ یعنی ادب، بیـان کا کلام کو ایک ترتیب وار ہیئت کے ساتھ پیش کریں تو وہ صنف نظم کہلاتی ہے۔ اس ادب کو اردو نظمـی ادب کہتے ہیں۔ لیکن آج کل اس نظمـی ادب کو اردو شاعری یـا شاعری کے نام سے بھی جانا جانے لگا ہے۔
جنوبی ایشیـاء مـیں اردو زبان ایک اہم زبان ہے۔ بالخصوص نظم مـیں اردو زبان کے مقابلہ مـیں دوسری زبان نہیں۔ اردو کی روایـات مـیں کئی اصناف ہیں جن مـیں غزل ایک شاہانہ آشکار مانا جاتا ہے۔
نظمـی اردو (اردو شاعری) مـیں ذیل کے اصناف ہیں :
- نظم
- غزل :
- مثنوی : ایک لمبی نظم جس مـیں کوئی قصہ یـا داستان کہی گئی ہو۔
- مرثیہ : شہیدوں کے واقعات کو بیـان کرنے والی نظم۔ بالخصوص شہیدانِ کربلاء کی شہادت کو بیـان کرنے والی نظم۔
- قصیدہ : قصیدہ اردو نظم کی وہ صنف ہے جسےی کی تعریف مـیں کہی گئی نظمـی شکل کہہ سکتے ہیں۔ اس کے چار اقسام ہیں
- * حمد : اللہ کی تعریف مـیں کہا گیـا قصیدہ۔
- * نعت : حضرت محمد کی شان مـیں کہا گیـا قصیدہ۔
- * منقبت : بزرگوں کی شان مـیں کہا گیـا قصیدہ۔
- * مدح : بادشاہوں، نوابوں کی شان مـیں کہا گیـا قصیدہ۔
- نوحہ : معرکئہ کربلا مـیں ہوئے شہیدوں کے واقعات کو بیـان کرنے والی صنف نوحہ ہے۔ مرثیہ اور نوحہ لکھنے مـیں شہرت یـافتہ شعرا مـیر ببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر ہیں۔
مزید دیکھیے
- اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریـات
- اردو ادب
- اردو ابجد
- اردو تحریک
بیرونی روابط
- انگریزی سے اردو آف لائن اور editable ڈکشنری ڈاون لوڈ کریں
- علوی نستعلیق یونیکوڈ فونٹ ڈاون لوڈ کریں
- اردو كى پيدائش
- ہندوستان مـیں اردو
- ايتھنولوگ کی اردو پر رپورٹ
- (جلد اول) بنيادی اردو
- رومن حروف تہجی کا قاعدہ
حوالہ جات
[اردو - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیـا لباس کوردی سورانی]
نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Tue, 20 Nov 2018 11:34:00 +0000